#PakistanAtDavos2020: وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں ’جب مشکل ہو تو نہ اخبار پڑھیں اور نہ ہی شام کو ٹی وی ٹاک شوز دیکھیں‘

عمران خان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں ناشتے کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان کو درپیش بڑے معاشی چیلنجز سے نکالنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

عمران خان نے اپنی زندگی کے نشیب و فراز پر تفصیل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کو کرکٹ کریئر کے آغاز میں ہی پہلے ٹیسٹ میچ سے ڈراپ کر دیا گیا تاہم انھوں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی منزل حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔

عمران خان کے مطابق بہت اہلیت والے لوگ موجود ہوتے ہیں لیکن سہل پسندی تباہ کن ہوتی ہے۔ عمران خان کے مطابق ان کو ڈراپ ہونے کی وجہ سے بہت طنز کا سامنا رہا لیکن انھوں نے جدوجہد جاری رکھی۔

وزیر عمران خان نے شرکا کو تفصیل سے اپنے فلاحی منصوبوں اور پھر سیاسی کریئر سے متعلق بتایا۔ وہ 47 منٹ جاری رہنے والی تقریب میں وہ خود ہی گفتگو کرتے رہے۔ جیسے کلاس میں لیکچر دیا جا رہا ہو۔ ان کی گفتگو کو غور سے سننے والے شرکا نے ان سے سوالات بھی کیے۔

انھوں نے شوکت خانم ہسپتال اور میانوالی میں نمل کالج کا بھی ذکر کیا جس کا الحاق برطانیہ کی بریڈ فورڈ یونیورسٹی سے ہے اور وہاں 80 فیصد طلبا اردو میڈیم سکول سے آتے ہیں۔

عمران خان ایک سیاستدان

عمران خان نے کہا کہ ان کے سیاسی سفر کے دوران بھی انھیں بڑے طنز کا سامنا رہا۔ تاہم انھوں نے مشکل صورتحال کا اعتراف کرتے ہوئے یہ انکشاف بھی کیا کہ وہ کرکٹ کے دنوں کی طرح اپنے وزرا کو بھی یہی فارمولا بتاتے ہیں کہ جب مشکل ہو تو پھر نہ اخبار پڑھیں اور نہ شام کو ٹی وی پر ٹاک شوز دیکھیں۔

عمران خان نے حکومت پر تنقید کے پس منظر میں کہا کہ انھوں نے بس اپنی چمڑی مزید موٹی کرلی ہے۔ ان کے بقول وہ 40 سال سے عوام کی نظروں میں ہیں اور تنقید کا بھی سامنا کرتے آئے ہیں۔

ان کے اس فارمولے پر شرکا ہنس پڑے تو انھوں نے کہا کہ وہ سنہ 1960 کی دہائی میں بڑے ہوئے جب دنیا کی نظر میں معاشی ترقی کرنے والے پاکستان کی بڑی قدر تھی۔ ان کے مطابق جب ایوب خان امریکہ گئے تو خود امریکی صدر استقبال کے لیے ایئرپورٹ گئے۔

عمران

،تصویر کا ذریعہGetty Images

عمران خان ایک حکمران

وزیر اعظم عمران خان نے حکومت میں گزرے والے سال کو اپنی زندگی کا مشکل ترین سال قرار دیا۔ مشکلات اور چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کی بھی خوب خبر لی۔

ان کے مطابق یہ ان کی سیاست میں بڑی کامیابی تھی کہ وہ دو جماعتی نظام کا حصار توڑنے میں کامیاب ہوئے اور اپنی جماعت کو اقتدار کی مسند تک پہنچایا۔ انھوں نے برطانیہ اور امریکہ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ کسی تیسری جماعت کا ان دو ترقی یافتہ ممالک میں بھی اقتدار کی جنگ میں شامل ہونا انتہائی مشکل ہے لیکن وہ دو جماعتی پارٹنرشپ پاکستان میں توڑنے میں کامیاب ہوئے۔

انھوں نے ماضی میں فوج اور سیاسی جماعتوں کی رساکشی اور اقتدار کے لیے ’میوزیکل چیئر‘ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان آج قرضوں کی دلدل میں ہے۔ توانائی کے شعبے میں گردشی قرضے بڑھتے جا رہے ہیں۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ ان کا وژن پاکستان کو فلاحی ریاست بنانا ہے۔ جہاں ہر کوئی ترقی کر سکے، میرٹ کا ایک نظام ہو جس سے غربت کا خاتمہ کیا سکے۔

انھوں نے اپنے خطاب میں ملائشیا کے حکمران مہاتیر محمد کا خصوصی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے بھی اپنی عوام کو صبر کرنے کا کہا تھا اور یہی بات وہ بھی کہتے ہیں کہ تبدیلی آنے میں کچھ وقت ضرور لگے گا۔

انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ہم جنت میں تو جانا چاہتے ہیں لیکن مرنا نہیں چاہتے، جس پر شرکا بھی ہنس پڑے۔ اس کے بعد عمران خان خود ہی بولے اور کہا کہ شاید یہ اچھی مثال نہیں ہے۔ پھر انھوں نے کہا کہ ٹیومر کو کاٹے بغیر کینسر کا علاج ممکن نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ ان کی حکومت خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے کام کر رہی ہے۔ اس حوالے سے انھوں نے احساس پروگرام کا ذکر کیا جو دیہی علاقوں کی خواتین کی بہتری کے لیے بھی لائحہ عمل دیتا ہے۔

عمران خان پاکستان کے صنعتی شعبے اور بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے عزم کا اظہار کیا اور شرکا کو بتایا کہ سوئٹزرلینڈ جو ہر سال سیاحت میں 80 ہزار ڈالر کماتا ہے پاکستان سیاحت کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ انھوں نے خاص طور پر گلگلت بلتستان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ علاقے یہاں سے دگنا خوبصورت ہیں۔

’پاکستان کسی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا‘

اس سے قبل سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں جاری عالمی اقتصادی فورم کے 50ویں سالانہ اجلاس کے خصوصی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان کسی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا۔

انھوں نے کہا کہ معیشت کی ترقی کے لیے امن اور استحکام کی ضرورت ہوتی ہے مگر نائن الیون کے واقعے کے بعد خطے میں ہونے والی جنگ کے نتیجے میں پاکستانی معیشت کو نقصان پہنچا۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ حکومت میں آنے کے بعد ان کا دو ٹوک فیصلہ تھا کہ پاکستان کسی اور تنازع کا حصہ نہیں بنے گا اور صرف امن کی خاطر اتحادی بنے گا۔

پاکستان کے عالمی کردار اور سفارتی کوششوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہم نے 'سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی کم کرنے کی کوشش کی، اور امریکا اور ایران کے درمیان بھی کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔'

'پاکستان جغرافیائی لحاظ سے خوش قسمت ملک ہے'

وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ 'پاکستان جغرافیائی لحاظ سے دنیا کے خوش قسمت ترین ممالک میں سے ایک ہے جہاں ایک طرف چین ہے جو تیز رفتار معیشت ہے جس کے بعد وسطی ایشیائی ممالک ہیں جہاں پاکستان افغانستان میں امن آنے کی صورت میں رسائی حاصل کر سکتا ہے۔

اس کے علاوہ انھوں نے ایران کا ذکر کیا اور کہا کہ حالات بہتر ہونے کے بعد ایران سے تجارت کے مواقع بڑھیں گے جس سے دونوں ممالک کا فائدہ ہوگا۔

’دوسرا بڑا پڑوسی انڈیا ہے جس کے ساتھ ہمارے تعلقات اچھے نہیں ہیں جس طرح کے تعلقات ہونے چاہیے تھے۔'

وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ اگر پاکستان اور انڈیا کے تعلقات بہتر ہوئے اور تجارت کا آغاز ہو گیا تو اس کی مدد سے پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کھل کر سامنے آئے گی۔

سوشل میڈیا پر بھی عمران خان کی ڈیووس میں خطاب کے دوران #ImranKhanInDavos کا ہیش ٹیگ ٹوئٹر پر ٹرینڈ کرتا رہا جہاں ان کی تقریر کی کافی پذیرائی ہوئی۔

صحافی اور تجزیہ کار سرل المائیڈا نے اپنی تین لفظی ٹویٹ میں لکھا، ’آئی کے، ناٹ بیڈ؟‘ یعنی برا نہیں۔

ٹوئٹر

،تصویر کا ذریعہTwitter/@Arslajawaid

ایک اور صارف ملائکہ یوسف نے بھی عمران خان کی تقریر کی تعریف کی اور کہا کہ وزیر اعظم نے پاکستانی موقف بہت اچھی طرح سے پیش کیا ہے۔

افغانستان اور پاکستان میں سکیورٹی امور کی ماہر ارسلا جاوید نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ وزیر اعظم نے پاکستان کی جغرافیائی اہمیت اور معدنی وسائل اور امن کے حصول کے لیے کوششوں پر زور دیا اور ملک میں ’گڈ گورننس‘ کے بارے میں بھی بات کی مگر ان کی تقریر کا زیادہ محور خطے کے سکیورٹی اور اس کے امن و امان پر تھا۔

وزیر اعظم عمران خان اور صدر ٹرمپ کی ڈیووس میں منگل کو ملاقات

سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں منگل کو پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے دوران کہا کہ افغانستان کے معاملے پر امریکا اور پاکستان ایک صفحے پر ہیں اور وہ افغانستان میں قیام امن، طالبان اور حکومت کے معاملات کا مذاکرات سے حل چاہتے ہیں۔

ڈیوس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

جبکہ صدر ٹرمپ نے ایک بار پھر کشمیر کے تنازع کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی اور کہا وہ عمران خان سے ملاقات کے دوران کشمیر کی صورتحال پر بات کریں گے اور پاکستان اور انڈیا کے درمیان اس معاملے پر جو مدد کر سکیں گے، وہ کریں گے۔

دونوں رہنما ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم (ڈبلیو ای ایف) میں شرکت کے لیے موجود ہیں جہاں ان کی خوشگوار ماحول میں ملاقات ہوئی۔

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 1
Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

Twitter پوسٹ کا اختتام, 1

اس موقع پر صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ عمران خان میرے دوست ہیں، ان سے دوبارہ ملاقات پر خوشی ہوئی۔

انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان اچھے تعلقات ہیں جبکہ دونوں ممالک آج سے پہلے اتنے قریب کبھی نہ تھے۔

باضابطہ گفتگو سے قبل میڈیا سے مشترکہ طور پر ملاقات کے دوران دوران وزیر اعظم عمران خان نے بھی کہا کہ انھیں صدر ٹرمپ سے دوبارہ مل کر خوشی ہوئی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان خطے میں امن کا خواہاں ہے اور خطے میں امن و استحکام کے لیے کردار ادا کرتا رہے گا اور اسی حوالے سے امریکی صدر کے ساتھ افغان امن عمل پر بھی بات ہوگی۔

ڈیوس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

انڈیا کے ساتھ تعلقات اور کشمیر کے بارے میں بات کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ انھیں امید ہے کہ امریکہ اس معاملے کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔

عمران خان کے ہمراہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر اعظم کے مشیر برائے تجارت عبدالرزاق داﺅد، معاون خصوصی برائے سمندر پار پاکستانی ذوالفقار بخاری اور معاون خصوصی برائے قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف بھی ان کے ہمراہ سفر کر رہے ہیں۔

عالمی اقتصادی فورم کے موقع پر وزیر اعطم عمران خان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے علاوہ دیگر عالمی رہنماﺅں سے بھی غیر رسمی ملاقاتیں کریں گے اور اس کے علاوہ وہ ڈبلیو ای ایف کے خصوصی سیشن سے خطاب کریں گے۔