آٹے کا بحران اور نان بائی کی ہڑتال: خیبر پختونخوا میں تندور ٹھنڈے مگر سوشل میڈیا گرم

نان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنخیبرپختونخوا میں یہ کلچر ہے کہ گھروں میں روٹی ہمیشہ تندور سے ہی آتی ہے۔ خصوصا شہری علاقوں میں گھر میں آٹا رکھنے اور روٹی پکانے کا رواج انتہائی کم ہے

پاکستان بھر میں آٹے کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے پیشِ نظر صوبہ خیبرپختونخوا میں نان بائی ایسوسی ایشن کی ہڑتال جاری ہے۔ لیکن اگر آپ صوبہ خیبرپختونخوا کے علاوہ پاکستان کے کسی اور صوبے میں رہتے ہیں تو شاید اس ہڑتال کے بارے میں آپ کو معلوم ہی نہ پڑے۔

لیکن تندور بند ہو جانے سے خیبرپختونخوا میں رہنے والے شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ لیکن ایسا کیوں ہے؟ آپ یقیناً سوچ رہے ہوں گے ’اگر تندور بند ہیں تو کیا ہوا، لوگ گھر پر روٹی کیوں نہیں بنا سکتے ہیں؟ آٹا تو اب بھی دستیاب ہے نا!‘

’خیبرپختونخوا میں یہ کلچر ہے کہ روٹی ہمیشہ تندور سے ہی آتی ہے‘

پشاور سے تعلق رکھنے والی نسرین جبین نے بی بی سی کی آسیہ انصر کو بتایا ’خیبرپختونخوا میں یہ کلچر ہے کہ گھروں میں روٹی ہمیشہ تندور سے ہی آتی ہے۔ خصوصاً شہری علاقوں میں گھر میں آٹا رکھنے اور روٹی پکانے کا رواج انتہائی کم ہے اور ورکنگ وویمن تو روٹی منگاتی ہی تندور سے ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

ان کا کہنا تھا: ’اس ہڑتال سے معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ صبح بچوں کو ناشتہ کر کے سکول جانا تھا لیکن جب ہم تندور پر روٹی لینے گئے تو معلوم ہوا کہ ہڑتال ہے، روٹی نہیں ملی تو بچے بغیر ناشتہ کیے سکول گئے۔ ڈبل روٹی بھی مشکل سے ہی ملی۔۔۔ پھر جب وہ دوپہر کو سکول سے واپس آئے تو تب بھی تندور بند تھے۔ ہم نے پھر چاول بنائے اور گزارا کیا۔‘

تاہم نسرین، جو کہ خود بھی نوکری پیشہ ہیں، نے بتایا کہ صوبے میں پانچ سے دس فیصد گھرانے ایسے ہیں جہاں گھروں میں روٹی بنائی جاتی ہے۔ ’اگر ہڑتال جاری رہی تو مشکل ہو جائے گا، چاول کتنے دن اور کتنے وقت کھائے جا سکتے ہیں؟‘

ان کے مطابق اگر وہ گھر میں روٹی بنانا بھی چاہیں تو نہیں بنا سکتیں کیونکہ ’گھروں میں گیس یا تو آتی نہیں یا اتنی کم آتی ہے کہ اس پر صرف چائے ہی بنا سکتے ہیں۔ اس لیے روٹی اور نان کے لیے تندور کے بغیر گزارا بہت مشکل ہے۔‘

آٹا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

حکومت سے مطالبہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت سب سے پہلے آٹے کی قیمت کم کرے کیونکہ نان بائیوں کی ہڑتال بھی اسی لیے ہے کہ آٹے کی قیمت تین گنا بڑھ گئی ہے۔‘

پشاور کی ایک اور رہائشی، سکول ٹیچر شازیہ نورین نے بی بی سی کو بتایا کہ صبح سکول جانے سے پہلے وہ نان منگوا کر اپنا اور بچوں کا ناشتہ بناتی ہیں۔

’نان بائیوں کی ہڑتال کا کل رات سے علم تھا تو رات کے کھانے کے ساتھ ہی صبح کے ناشتے کے لیے روٹیاں منگا لی تھیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ تین ماہ پہلے بھی یہی مسئلہ ہوا جس کے بعد روٹی کی قیمت پندرہ روپے کر دی گئی تھی اور اب پھر یہی معاملہ ہوا ہے۔

’اگر یہ ہڑتال زیادہ دن چلی تو میرے جیسی ورکنگ لیڈیز کے لیے تو بہت مسئلہ ہو جائے گا کیونکہ ہم نے تو گھر میں کبھی روٹی بنائی ہی نہیں لیکن اگر مسئلہ بڑھا تو پھر مجبوری ہے سلنڈر پر ہی روٹی بنانی پڑے گی۔‘

سوشل میڈیا پر ردِعمل

نان

،تصویر کا ذریعہ@Arham05339739

خیبرپختونخوا میں نان بائیوں کی ہڑتال کا سوشل میڈیا پر بھی کافی چرچا رہا۔

بابا جانی نامی ایک صارف کا کہنا تھا کہ آج صبح ناشتے کے لیے اٹھا تو معمول کے مطابق نان لینے گلی کے نان بائی کے پاس جا کر پتہ چلا کہ دکان بند ہے پھر دو تین اور کے پاس بھی گیا مگر سب بند ملے۔

بابا جانی کا مزید کہنا تھا کہ یہ پشاور میں نشترآباد اور حسین آباد کا علاقہ ہے جہاں بریڈ بھی میسر نہیں۔

نان

،تصویر کا ذریعہ@ShahabAwan5

لوجکاستان نامی ایک صارف کا کہنا تھا ’نان بائیوں کا بہت زبردست اتفاق و اتحاد ہے پشاور میں ایک بھی تندور نہیں کھلا ہے سب بند ہے۔۔۔ آج سرکاری اور پرائیویٹ ملازمین نے چائے کیک بسکٹ پر گزارا کیا ہے۔‘

نان

،تصویر کا ذریعہ@_ChNomi

عبدالللہ انصاری نے طنزیہ انداز ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ’ماموں کے بیٹے کامران نے بتایا ہے کہ تندور سے 5 روپے کی 15 روٹیاں مل رہی ہیں. یہ تندور وزیراعظم ہاؤس کی جگہ قائم کی گئی یونیورسٹی میں لگایا گیا ہے. حالات کے پیشِ نظر، پشاور بی آر ٹی کے زیر اہتمام اس تندور تک ملک بھر سے خصوصی بسیں بھی چلائی گئی ہیں.‘