پاکستان کے سکھ سیاسی رہنما نے ’دھمکیوں‘ کے بعد ملک چھوڑ دیا

  • محمد زبیر خان
  • صحافی
رادیش سنگھ
،تصویر کا کیپشن’اس وقت میں یہ نہیں بتانا چاہتا کہ میں کس مقام پر منتقل ہوا ہوں مگر مناسب وقت پر بتا دوں گا‘

معروف سکھ سیاسی رہنما رادیش سنگھ عرف ٹونی بھائی نے اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان چھوڑ دیا ہے۔ رادیش سنگھ نے سال 2018 کے عام انتخابات میں اپنے آبائی علاقے پشاور سے حصہ لیا تھا جس کے بعد انھیں دھمکیاں ملنا شروع ہوئیں تو انھوں نے پشاور کو خیر آباد کہہ کر لاہور میں رہائشں اختیار کی تھی۔

رادیش سنگھ نے نامعلوم مقام سے بی بی سی کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ میں انتہائی دکھی دل کے ساتھ بتا رہا ہوں کہ میں نے اپنے خاندان اور بچوں کی زندگی کے تحفظ کی خاطر پاکستان چھوڑ دیا ہے۔ اگر بات صرف میری ہوتی تو کبھی بھی پاکستان نہ چھوڑتا مگر اب بات میری خاندان اور میرے ساتھ منسلک چار مزید زندگیوں تک پہنچ چکی تھی۔ جس کے بعد میرے لیے اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں تھا کہ اپنا وطن چھوڑ کر دیارِ غیر منتقل ہو جاؤں۔

اس وقت میں یہ نہیں بتانا چاہتا کہ میں کس مقام پر منتقل ہوا ہوں مگر مناسب وقت پر بتا دوں گا۔

رادیش سنگھ نے پاکستان کیوں چھوڑا

رادیش سنگھ نے دس جنوری کو لاہور پولیس کو ایک درخواست دی تھی۔ جس میں کہا گیا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کے ہمراہ سات دسمبر کو شام کے وقت موٹر سائیکل پر اپنے بیٹے کے ہمراہ کچہ جیل روڈ سے گزر رہے تھے کہ چار نامعلوم لڑکوں نے انھیں روکا اور ان پر تشدد شروع کر دیا۔

سب کے ہاتھوں میں ڈنڈے اور ایک کے ہاتھ میں پستول تھا۔ اس لیے ان کے ساتھ لڑنا مناسب نہیں سمجھا اور دوسرا جوان بیٹا تھا اس لیے مار کھاتے رہے اور پھر چپ چاپ گھر پہنچ گے۔ آرام کے بعد دوسرے دن ہم خاندان سمیت راولپنڈی چلے گئے اور اب واپسی پر آپ صاحباں کو تحریری طور پر آگاہ کر رہا ہوں کہ یاداشت رہے اور کسی ناخوشگوار واقعے سے بچا جا سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس درخواست میں قصداً اس تنظیم کا نام نہیں لکھا اور اب بھی نہیں چاہتا کہ اس تنظیم اور رہنما کا نام لوں کیونکہ ہمارے رشتہ دار تو اب بھی پاکستان میں ہیں۔

مگر یہ کہ درخواست کے بعد ہمیں تحفظ دیا جاتا۔ ہمیں خفیہ اداروں کی طرف سے فون کالیں ملنا شروع ہو گئیں کہ ہم غلط بیانی کر رہے ہیں، جھوٹ بول رہے ہیں اور یہ کہ ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ بھی دھمکیاں اور پیچھا کرنا معمول بن چکا تھا۔

رادیش سنگھ کے مطابق یہ واقعہ اس وقت پیش آیا تھا جب ایک مذہبی رہنما نے کرتا پور کوریڈور سے متعلق سکھوں کی سر عام توہین کی تھی اور انتہائی نا مناسب بات کی تھی۔ جس پر میں نے ایک ٹویٹ کی تھی۔ اس ٹویٹ میں کہا تھا کہ یہ الفاظ اور سوچ نامناسب ہے۔ اس سے نفرت کے کلچر کو جنم دیا جا رہا ہے جو کہ مناسب نہیں ہے۔ اس ٹویٹ کے بعد مجھے بہت زیادہ ٹرولنگ اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

’بس یہ ٹرینگ پوائنٹ تھا جب سوچنا شروع کردیا کہ خاندان اور بچوں کے تحفظ کے لیے پاکستان چھوڑ دینا چاہیے شاید کہ کسی اور مقام پر بچوں کا مستقبل محفوظ ہو جائے۔

ایس ایچ او تھانہ کوٹ لکھپت لاہور محمد منور نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے رادیش سنگھ کی درخواست موصول ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے وضاحت کی کہ انھوں نے اپنی درخواست وقوعہ کے کئی روز بعد صرف ’یاداشت‘ کے لیے دی تھی نہ کہ ایف آئی آر درج کرائی تھی۔

پولیس اہلکار نے بتایا کہ مذکورہ درخواست پر تفتیش کی گئی لیکن رادیش سنگھ کے دعوی کے مطابق کسی بھی ایسے واقعے کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

ایس ایچ او نے بتایا کہ رادیش پاکستان شہری ہیں اور اگر وہ ایف آئی آر درج کروانے چاہتے ہیں تو پولیس کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ محمد منور کا کہنا تھا کہ بعض اوقات لوگ غیر ممالک میں پناہ حاصل کرنے کے لیے پولیس کو رپورٹ کروا دیتے ہیں۔

رادیش سنگھ کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ ہی ننکانہ صاحب میں گرودوراہ صاحب پر حملے اور پتھراؤ کا واقعہ ہو گیا۔ اس پر دل بہت خفا ہوا۔ اس پر صرف پاکستان ہی سے شکایت نہیں ہے بلکہ اپنی کمیونٹی سے بھی شکایت ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگر ایک سکھ لڑکی نے مذہب تبدیل کر دیا ہے اور ثابت ہو رہا ہے کہ اس نے اپنی مرضی سے ایسا کیا ہے تو پھر اس کو ایشو بنا نے کی ضرورت نہیں تھی۔ حقیقت کا سامنا کرنا چاہیے۔ مگر اس معاملے کو بے جا طور پر اچھالا گیا جس کے نتیجے میں نفرتیں بڑھتی گئیں تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اب نفرت کا ماحول اتنا بڑھ گیا ہے کہ کم از کم میرا اور میرا خاندان پاکستان میں محفوظ نہیں تھا۔ مجھے واضح طور پر کہہ دیا گیا تھا کہ میں اور میرا خاندان اب ٹارگٹ ہیں۔ جس پر اپنے رشتے داروں اور دوستوں کی مدد حاصل کی اور پھر پاکستان چھوڑ دیا۔

رادیش سنگھ کے ساتھ لاہور میں کیا ہوا

رادیشن سنگھ کا کہنا تھا کہ پشاور سے جب منتقل ہوا تو خیال تھا کہ پنجاب میں پناہ ملے گئی، روزگار ملے گا مگر افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا۔

لاہور میں میرے تین بچوں کو تعلیمی اداروں میں داخلے بھی نہ مل سکے۔ ہماری کمیونٹی کے ایک صاحب کالج چلاتے تھے ان کے پاس گیا کہ میرے بیٹے کو داخلہ دے دیں تو انھوں نے چالیس ہزار فیس بتائی۔ میں نے کہا کہ میرے پاس تو کوئی کام نہیں ہے۔ میں کیسے فیس دوں گا کم از کم آدھی ہی کردیں تو انھوں نے اس سے بھی انکار کردیا۔

رادیش سنگھ کا کہنا تھا کہ جب وہ لاہور منتقل ہوئے تو کچھ دن رشتے داروں کے پاس رہے مگر کب تک۔ گھر ڈھونٹنے نکلے تو ان کی اپنی برادری اور مسیحی اور مسلم برادری نے بھی کرایے پر گھر دینے سے انکار کر دیا تھا۔

جس کے بعد ایک نیک دل صاحب کو ہم پر ترس آیا تو انھوں نے ٹرسٹ کا ایک گھر دے دیا جس میں ہم رہتے رہے تھے۔

’میں اور میرے بچے روزگار کی تلاش میں جاتے تو کوئی ہمیں نوکری نہیں دیتا تھا۔ مجھے کہتے تھے کہ بابا جی آپ کو گھر میں آرام کرنا چاہیے۔ میرے بچوں کو سکھ ہونے کی بنا پر کام نہیں دیا جاتا تھا۔‘